دیکھو، سنو اور جیو کتاب نمبر 5
طرح کلی: Elisha, Daniel, Jonah, Nehemiah, Esther. 24 sections. It has a picture book to go along with the recording.
شماره کتاب: 422
زبان: Urdu
موضوع: Sin and Satan (Deliverance, Sin, disobedience); Christ (Life of Christ, Authority); Character of God (Word of God (the Bible)); Living as a Christian (Worship, Obedience, No other gods, idols, Victory, Faith, trust, believe in Jesus); Bible timeline (Gospel, Good News, People of God); Problems (Problems, troubles, worries)
مخاطبان: General
سبک و سیاق: Monolog
نوع: Bible Stories & Teac
هدف: Teaching
نقل قول کتاب مقدس: Extensive
وضعیت: Publishable
متن کتاب
باب نمبر 5: خُدا کےبندوں کی آزمائش
بھائیو اور بہنو !
واقعات جن کا ذکر یہاں کیا گیا ہے خُدا کی کتاب یعنی بائبل مُقدس میں سے لئے گئے ہیں۔یہ اُن عظیم لوگوں کے بارے میں بتاتے ہیں ۔ جنھیں آزمائش کے وقت خُدا سے مدد ملی۔
۱۔ نعمان الیشع کے گھر م
۲۔سلاطین ۵: ۱۔۱۰
الیشع اسرائیل کے ملک میں ایک بہت بڑا استاد اور نبی تھا۔ایک دن ایک شخص اِس کے گھر آیا۔اُس کا نام نعمان تھا۔نعمان شامی فوج کا سردار تھا۔شام اسرائیل کا دشمن تھا۔نعمان ایک بہادر اور طاقتور شخص تھا۔اِسے کوڑھ کی بیماری تھی۔نعمان کو بتایا گیاتھا کہ الیشع نبی اِسے کوڑھ سے شفا دے سکتا ہے وہ ملکِ اسرائیل میں آیا۔الیشع نعمان سے ملنے کے لئے گھر سے باہر تک نہ نکلا۔الیشع نے اپنے نوکر کو بھیجا کہ نعمان سےجاکر یہ کہہ دے،’’جا اور دریا یردن میں سات غوطے لگا اور تو کوڑھ سے شفا پائے گا‘‘۔نعمان بہت ناراض ہوا اور کہنے لگا،’’مَیں نے سوچا تھا کہ وہ نکل کر ضرور میرے پاس آئے گا۔خُداوند اپنے خُدا سے دعا کرے گااور مَیں کوڑھ سے پاک صاف ہوجاؤں گا‘‘۔نعمان بڑے غصّہ میں واپس چلا گیا۔
۲۔ نعمان دریا پر شفا پاتا ہ
۲۔سلاطین ۵: ۱۳۔۱۹
نعمان کےنوکروں نے اِس کی منت کی کہ وہ غصّہ اور غرور نہ کرے۔نوکروں نے نعمان کو الیشع کا آسان سا حکم ماننے پر راضی کر لیا۔نعمان نے دریائے یردن میں سات غوطے لگائے تو کوڑھ سے شفا پا لی۔الیشع کسی انسان سے نہیں ڈرتا تھا۔وہ ایک عظیم خُدا پر ایمان رکھتا تھا۔الیشع جانتا تھا کہ خُدا سب کچھ کر سکتا ہے۔وہ یہ بھی جانتا تھا کہ دکھوں سے نجات پانےکے لئے لوگوں کو خُدا کا حکم ماننا چاہیے۔
۳۔ الیشع اور خُدا کا لش
۲۔سلاطین ۶: ۸۔ ۱۷
جب کبھی شامی لشکر اسرائیل پر حملہ کرنے کے لئے آتا تو خُدا الیشع کو پہلے ہی سے اِس کے بارے میں بتا دیا کرتا تھا اور الیشع اسرائیل کے بادشاہ کو خبردار کر دیتا تھا۔یوں شامی لشکر بنی اسرائیل کو شکست نہ دے پاتا تھا۔شام کے بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا، ’’جاؤ اور جا کر الیشع کو تلاش کرو تاکہ مَیں اِسے قید کر سکوں‘‘۔صبح سویرے الیشع کا خادم باہر نکلا تو دیکھا کہ شامی سپاہی الیشع کو پکڑنے آرہے ہیں۔نوکر زور زور سے چلانے لگا،’’ہائے میرے مالک ہم کیا کریں‘‘؟ الیشع نے جواب دیا،’’ خوف نہ کر کیونکہ ہمارے ساتھ والے اُن کے ساتھ والوں سے زیادہ ہیں‘‘۔پھر نوکر نے دیکھا کہ الیشع کے گردا گرد کا پہاڑ آتشی گھوڑوں اور رتھوں سے بھرا ہے۔یہ خُدا کا لشکر تھا جیسے بنی اسرائیل کی حفاظت کے لئے بھیجا گیا تھا۔
۴۔ الیشع اور اندھی فوج
۲۔سلاطین ۶: ۱۷۔ ۲۳
جیسے شامی سپاہی الیشع کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھے تو الیشع نے خُدا سے یوں دُعا کی،’’اِن لوگوں کو اندھا کر دے‘‘۔سارے سپاہی اُسی وقت اندھے ہوگئے۔پھر الیشع نے اُن سپاہیوں سے کہا،’’تم میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ تو مَیں تم کو اُس شخص تک پہنچا دوں گا جس کی تم تلاش کرتے ہو‘‘۔الیشع اِن تمام اندھے سپاہیوں کو سیدھا اسرائیل کے دارالسلطنت سامریہ میں لے گیا۔سامریہ میں الیشع نے ایک بارپھر خُدا سے دُعا کی،’’اَے خُداوند اِن لوگوں کی آنکھیں کھول دے‘‘۔تب شامی سپاہیوں کو معلوم ہوا کہ وہ اپنے دشمنوں کے شہر میں ہیں۔شاہ اسرائیل چاہتا تھا کہ اِن کو مار ڈالے لیکن الیشع نے کہا،’’ اُن کے آگے روٹی اور پانی رکھ تاکہ وہ کھائیں پئیں اور اپنے آقا کے پاس جائیں ‘‘۔
بھائیو اور بہنو ! الیشع کا خُدا ہمارے تمام دشمنوں سے زیادہ بڑا ہے خُدا پر ایمان رکھنے والوں کو بدلہ نہیں لینا چاہیے۔
۵۔ سامریہ کا گھیراؤ
۲۔سلاطین ۶: ۲۴۔۲۷
شامی لشکر نے اسرائیل پر ایک بار پھر چڑھائی کی اور کافی عرصہ تک سامریہ کو گھیرے رکھا۔جلد ہی بنی اسرائیل کے پاس خوراک ختم ہوگئی۔اسرائیل کا بادشاہ شہر کی دیوار پر جا رہا تھا۔دو عورتیں بادشاہ کے پاس آئیں۔اِن عورتوں نے بادشاہ نے منت کی،’’ اَے بادشاہ مدد کر‘‘۔وہ بہت زیادہ بھوکی تھیں یہاں تک کہ وہ اپنے بچے کھانے پر مجبور ہوگئی تھیں۔ بادشاہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ بادشاہ بہت غصّے میں تھا کیونکہ خُدا نے اِن کو شامی لشکر سے نہیں بچایا تھا۔بادشاہ نے الیشع کو جان سے مار دینے کا فیصلہ کر لیا۔ الیشع نے بادشاہ کو یہ پیغا م بھیجا ،’’ کہ خُداوند یوں فرماتا ہے ۔۔۔ کل اِسی وقت سامریہ کے پھاٹک پر میدہ اور جو بکے گا‘‘۔
۶۔ چار کوڑھ
۲۔سلاطین ۷: ۳۔۲۰
اس وقت چار آدمی سامریہ کے پھاٹک پر بیٹھے تھے۔وہ سب کوڑھی تھے۔وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے،’’ ہم یہاں بیٹھے بیٹھے کیوں مریں آؤ ہم شامی لشکر گاہ میں جائیں‘‘۔اِسی دوران میں شامی لشکر کے سپاہیوں نے ایک بڑی فوج کی آواز سنی۔وہ نہایت ڈر گئے اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگ نکلے۔جب وہ چاروں کوڑھی لشکر گاہ میں پہنچے تو وہاں کوئی نہ تھا۔کوڑھیوں نے کھایا پیا اور اپنی ضرورت کی ہر چیز لے لی۔پھر وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے،’’ ہم اچھا نہیں کر رہے بلکہ آج کا دن خوشخبری کا دن ہے اور ہم خاموش ہیں ‘‘۔چاروں کوڑھی اِسی وقت سامریہ لوٹ آئے اور بادشاہ کو خبر سنائی۔اور جیسا الیشع نے کہا تھا۔لوگ سامریہ کے پھاٹک پر شامی لشکر گاہ سے لایا ہوا اناج بیچنے لگے۔خُدا نے بنی اسرائیل کو بچا لیا۔
بھائیو اور بہنو ! خُدا نے ہمیں ہمیشہ کی موت سے بچانے کے لئے یسوع کو بھیجا ہے۔یہ سب سے بڑی خوشخبری ہے۔ہمیں یہ خوشخبری دوسروں تک ضرور پہنچانی چاہیے۔
۷۔ یوناہ خُدا کے حضور سے بھاگتا ہ
یوناہ ۱:۱۔۷
الیشع کی وفات کے بعد اسرائیل میں ایک اور نبی ہوا۔اِس نبی کا نام یوناہ تھا۔خُدا نے یوناہ سے کہا،’’ اِس بڑے شہر نیِنوہ کو جا اور اُس کے خلاف منادی کر‘‘۔کیونکہ اُن کی شرارت میرے حضور پہنچی ہے۔ نیِنوہ کے لوگ بھی بنی اسرائیل کے دشمن تھے۔یوناہ نیِنوہ کے لوگوں کے پاس نہیں جانا چاہتا تھا۔پس اُس نے بھاگنے کی کوشش کی۔ اُسے ایک جہاز مل گیا جو ایک دور دراز ملک کو جا رہا تھا۔یوناہ نے اپنا کرایہ ادا کیا۔جہاز روانہ ہوگیا ۔ جلد ہی سمندر میں ایک بہت بڑا طوفان اُٹھا۔جہاز میں سوار سب لوگ بہت زیادہ ڈر گئے۔وہ کہنے لگے،’’ آو ہم قرعہ ڈال کر دیکھیں کہ یہ آفت ہم پر کس کے سبب سے آئی‘‘ اُنہوں نے جب قرعہ ڈالا تو وہ یوناہ کے نام نکلا۔
۸۔ یوناہ اور بڑی مچھ
یوناہ ۱: ۸۔۲: ۱۰
ملاح یوناہ سے پوچھنے لگے،’’تو نے کیا کیاہے‘‘؟ یوناہ نے اُن کو بتایا کہ وہ خُداوند کے حضور سے بھاگ رہا ہے۔پس وہ اُس سے کہنے لگے،’’ ہم تجھ سے کیا کریں کہ سمندر ہمارے لئے ساکت ہوجائے‘‘؟یوناہ نے جواب دیا،’’ مجھ کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دو کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ یہ بڑا طوفان تم پر میرے ہی سبب سے آیا‘‘۔ وہ لوگ یوناہ کو جان سے نہیں مارنا چاہتے تھے لیکن طوفان اور زیادہ بڑتا جاتا تھا۔اُنہوں نے یوناہ کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔یوناہ ہلاک نہ ہوا بلکہ اُس کو ایک بڑی مچھلی نے نگل لیاتھا۔یوناہ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا۔اور پھر مچھلی نے یوناہ کو خشکی پر اُگل دیا۔
۹۔ یوناہ نیِنوہ شہر م
۳: ۱۔ ۱۰
خُدا کا کلام دوسری بار یوناہ پر نازل ہوا۔’’ اُٹھ اِس بڑے شہر نیِنوہ کو جا اور اِس بات کی منادی کر جس کا مَیں تجھے حکم دیتا ہوں‘‘۔ یوناہ نے خُدا کا حکم مانا اور نیِنوہ کو چلا گیا۔یوناہ نے نیِنوہ کے لوگوں کو یہ کہہ کر خبردار کیا،’’چالیس روز بعد نیِنوہ برباد ہوجائے گا‘‘۔بادشاہ اور اُس کے تمام لوگوں نے خُدا سے گڑ گڑا کر دُعا کی کہ وہ اِنہیں بچا لے۔ نیِنوہ کے لوگوں نے بُرے کام چھوڑ دیے اور خُدا اِن کو ہلاک کرنے کے اپنے فیصلے سے باز آیا۔
بھائیو اور بہنو ! ہم سب یوناہ اور نیِنوہ لے لوگوں کی مانند ہیں۔ ہم سب خُدا کے نافرمان ہیں اور گناہ کرتے ہیں۔ہم سزا کے حق دار ہیں پھر بھی خُدا ہم سے محبت کرتا ہے۔خُدا نے ہمیں خبردار کرنے کے لئےیسُوع کو بھیجا تاکہ ہم بدی سے باز آئیں۔یسوع نے ہمیں بچانے کے لئے اپنی جان دے دی۔وہ تین دن تک قبر میں رہا۔جس طرح یوناہ تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہا۔پھر یسوع نے موت پر فتح پائی اور مُردوں میں جی اُٹھا۔اب یسُوع گناہ اور توبہ سے بدی کرنے والوں اور اس کی راہ پر چلنے والوں کو ہمیشہ کی زندگی دینے کی قدرت رکھتا ہے۔
۱۰۔ آستر اور بادشاہ
آستر ۱: ۱۔۲: ۱۸
آستر ایک نوجوان یہودی لڑکی تھی۔اِس کے ماں باپ مر چکے تھے۔آستر کے چچا مردکی نے اِسے اپنی بیٹی بنا کر پالا۔آستر اور مردکی کو اسرائیل کے دوسرے لوگوں کے ساتھ قیدی بنا لیا گیا یوں وہ سب فارس پہنچا دیے گئے۔جب بادشاہ کو اِس کی ملکہ نے ناراض کر دیا تو اِس نے کسی دوسری عورت کو اپنی ملکہ بنانے کا سوچا۔بادشاہ نے اپنی سلطنت کی تمام خوبصورت جوان کنواری لڑکیوں کو اپنے پاس بلایا۔اِن سب لڑکیوں میں سے بادشاہ نے آستر کو چُن لیا کہ وہ اِس کی نئی ملکہ بنے۔آستر نے کسی پر ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ یہودی ہے۔
۱۱۔ مردکی کا سجدہ کرنے سے انکار
آستر ۳: ۱۔۴: ۱۷
ہامان ملکِ فارس میں ایک بہت بڑا افسر تھا۔سب لوگوں کے لئے ضروری تھا کہ جب وہ گزرے تو اُسے جھک کر سلام کریں ۔ مردکی ایک سچے خُدا کی عبادت کرتا تھا۔اِس نے ہامان کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔ہامان کو اِس بات کا بہت غصّہ تھا۔اِس نے مردکی سے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ایک دن اِس نے بادشاہ کو بتایا کہ یہودی تیرے قانون نہیں مانتے۔اِن کو ہلاک کرنے کا حکم لکھا جائے۔ہامان نے بادشاہ کو بہت بڑی رقم دی تاکہ وہ اِس کی درخواست منظور کر لے۔ہامان نے لوگوں کو بتا دیا کہ مقرر کئے گئے دن تمام یہودیوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ہامان نے خود ایک سولی تیار کی جس پر وہ مردکی کو چڑھانا چاہتا تھا۔مردکی نے آستر کو کہلا بھیجا کہ وہ بادشاہ کے حضور جا کر اپنی قوم کے لئے درخواست کرے۔آستر نےکہا،’’ اگر کوئی بن بلائے بادشاہ کے پاس جاتا ہے تو اُسے مار دیا جاتا ہے‘‘۔آستر نے یہودیوں سے کہاکہ اِس کے لئے دُعا کریں۔پھر کہنے لگی،’’ ایسے ہی میں بادشاہ کے حضور جاؤں گی اور اگر مَیں ہلاک ہوئی تو ہوئی۔
۱۲۔ آستر کی ضیاف
آستر ۵: ۱۔۷: ۱۰
بادشاہ نے آستر کو اپنے دربار میں ملنے کی اجازت دے دی۔آستر نےبادشاہ کو ضیافت میں آنے کی دعوت دی اور ہامان کو بھی بلایا۔ضیافت میں بادشاہ نے آستر سے پوچھا،’’ آستر ملکہ تو کیا چاہتی ہے‘‘؟آستر نے جواب دیا،’’میری خواہش ہے کہ میری جان بخشی ہو کیونکہ مَیں اور میرے لوگ ہلاک اور قتل کئے جانے کے لئے بیچ دیے گئے ہیں‘‘۔بادشاہ نے پوچھا وہ کون ہے جس نے اپنے دل میں ایسا خیال کیا؟ تب آستر نے کہا،’’ہمارا دشمن یہی خبیث ہامان ہے‘‘۔جب بادشاہ کو ہامان کے شیطانی منصوبے کا علم ہوا تو اُس کا غصّہ بھڑک اُٹھا۔اُس نے ہامان کو اُسی سولی پر جو اُس نے مردکی کے لئے تیار کی تھی ٹانگ دیا۔یوں تمام یہودیوں کی جان بچ گئی۔بھائیو اور بہنو ! آستر اپنے لوگوں کی خاطر جان دینے کے لئے تیار ہوگئی تھی۔لیکن یسُوع ہم سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اِس نے ہم سب کو ہمیشہ کی موت سے بچانے کے لئے اپنی جان قربان کر دی۔
دانی ایل اور نحمیاہ دشمنوں کے ملک میں رہنے پر مجبور تھے۔لیکن وہ ایک سچے خُدا کی عبادت کرتے تھے۔اِس طرح وہ بڑے انسان بنے۔
۱۳۔ دانی ایل اور اُس کے دوس
دانی ایل ۱: ۱۔۲۰
دانی ایل اور اِس کے تین دوست یہودی تھے۔اِن کے دشمن اِنہیں بابل کی سر زمین میں لے گئے۔شاہ بابل چاہتا تھا کہ وہ اِس کی خدمت کریں۔اِنہیں بابل کی زبان اور طور طریقے سیکھنے پڑے۔دانی ایل اور اِس کے دوستوں نے شاہی کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ وہ کھانا یہودی رسم و رواج کے خلاف تھا۔دانی ایل اور اِس کے دوست جانتے تھے کہ اِن کو خُدا کی شریعت کو ماننا ہے اور خُدا کو جلال دینا ہے۔ اُنہوں نے کھانے کے لئے ساگ پات اور پینے کے لئے پانی مانگا۔اِن کا نگران ڈرتا تھا کہ کہیں وہ دبلے اور بیمار نہ ہو جائیں۔خُدا نے اِن کی حفاظت کی اور وہ بابل کے نوجوانوں کی نسبت زیادہ صحت مند اور عقلمند ہو گئے۔
۱۴۔ دانی ایل اور شاہِ باب
دانی ایل ۲: ۱۔۴۹
شاہِ بابل نے ایک خواب دیکھا۔بادشاہ نے نجومیوں سے کہا کہ اِس کا خواب بتائیں لیکن کوئی بھی اِس کا خواب نہ بتا سکا۔بادشاہ نے اِنہیں ہلاک کرنے کا حکم دے دیا۔دانی ایل اور اِس کے دوستوں نے خُدا سے دُعا کی۔خُدا نے دانی ایل پر بادشاہ کا خواب ظاہر کیا۔دانی ایل نے بادشاہ کے پاس جاکر کہا،’’آسمان پر ایک خُدا ہے جو راز کی باتیں ظاہر کر دیتا ہے۔وہی عظیم خُدا بادشاہ کو بتانا چاہتا ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے‘‘۔بادشاہ نے خواب میں دنیا کی تمام سلطنتیں دیکھیں۔پھر اِس نے ایک بڑی سلطنت دیکھی جس نے باقی تمام سلطنتوں کو تباہ کر دیا۔وہ خُدا کی سلطنت تھی جو ہمیشہ تک قائم رہے گی۔دانی ایل نے یہ باتیں بادشاہ کو بتائیں ۔ بادشاہ دانی ایل سے بہت خوش ہوا۔نجومیوں کی جان بچ گئی۔اور دانی ایل کو بابل کے تمام صوبوں کا حاکم مقرر کر دیا۔
۱۵۔ سونے کی مورت
دانی ایل ۳: ۱۔۱۲
شاہِ بابل نے سونے کی ایک بہت بڑی مورت بنوائی۔اِس نے اپنے سب سرداروں کو بلایا کہ وہ آکر مورت کو دیکھیں۔بادشاہ کے نوکروں نے لوگوں کو بادشاہ کو حکم سنایا،’’ جس وقت تم ساز کی آواز سنو تو سونے کو مورت کے سامنےگر کر اِسے سجدہ کرو۔جو کوئی گر کر سجدہ نہ کرے گا اِسے آگ کی جلتی ہوئی بھٹی میں ڈال دیا جائے گا‘‘۔دانی ایل کے دوست سدرک،میسک اور عبدنجو سونے کو مورت کو سجدہ نہیں کرتے تھے۔کچھ لوگوں نے بادشاہ کے پاس جا کر عرض کی،’’ چند یہودی تیری نافرمانی کر رہے ہیں وہ نہ تو تیرے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں اور نہ ہی سونے کی مورت کی پوجا کرتے ہیں‘‘۔
۱۶۔ آگ کی بھٹ
دانی ایل ۳: ۱۳۔ ۳۰
بادشاہ نے سدرک،میسک اور عبدنجو کو بلا بھیجا۔اِس نے اِن سے کہا،’’ اگر تم سونے کی مورت کی پوجا نہیں کرو گے تو تمیں آگ کی بھٹی میں ڈال دیا جائے گا پھر کون سا معبود تمہیں بچائے گا‘‘؟ اُنہوں نے جواب دیا،’’ ہمارا خُدا جس کی ہم عبادت کرتے ہیں ہم کو بچانے کی قدرت رکھتا ہے لیکن اگر وہ ہمیں نہیں بچاتا پھر بھی ہم سونے کی مورت کی پوجا نہیں کریں گے‘‘۔ سدرک،میسک اور عبدنجو کو آگ کی بھٹی میں پھینک دیا گیا۔تب بادشاہ پکار اُٹھا،’’ دیکھو ! مَیں چار شخص آگ میں چلتے پھرتے دیکھتا ہوں اور چوتھے کی صورت الہہ زادہ کی سی ہے‘‘۔وہ تینوں مرد آگ سے باہر نکلے تو وہ جھلسے تک نہ تھے تب بادشاہ نےکہا،’’ سدرک، میسک اور عبدنجو کے خُدا نے اپنا فرشتہ بھیج کر اپنے بندوں کو رہائی بخشی۔کوئی دوسرا خُدا اِس طرح نہیں بچا سکتا‘‘۔
۱۷۔ دانی ایل کی دُع
دانی ایل ۶: ۱۔۱۳
دانی ایل کو بابل کے ملک میں بہت زیادہ اختیار حاصل تھا۔دوسرے افسر اِس سے بہت حسد کرتے تھے مگروہ اِس میں کوئی غلطی نہ پا سکے تھے کیونکہ دانی ایل بادشاہ کا حکم مانتا تھا۔دانی ایل کے دشمن بادشاہ کے پاس گئےاور کہنے لگے کہ بادشاہ ایک فرمان جاری کرے،’’ کہ اَے بادشاہ تیس روز تک جو کوئی تیرے سوا کسی معبود یا آدمی سے کوئی درخواست کرے شیروں کی ماند میں ڈال دیا جائے‘‘۔بادشاہ کو ان سے انصاف کرنا پڑا ۔اس نے نیا فرمان بنایا ۔دانی ایل نے بادشاہ کا نیا حکم ضرور سنا مگر روز کے معمول کے مطابق اپنے خُدا کی عبادت جاری رکھی۔اِس کے دشمنوں نے اِسے دُعا کرتے ہوئے دیکھا تو اُنہوں نے بادشاہ کے پاس جا کر کہا، ’’دانی ایل نے تیرے بنائے ہوئے حکم کو نہیں مانا’’۔
۱۸۔ دانی ایل شیروں کی ماند می
دانی ایل ۶: ۱۴۔ ۲۴
بادشاہ نہیں چاہتا تھا کہ دانی ایل شیروں کی مانند میں مارا جائے لیکن وہ فرمان کو نہیں بدل سکتا تھا۔دانی ایل کو شیروں کے آگے ڈال دیا گیا۔اگلے دن صبح سویرے بادشاہ جلدی سے شیروں کی ماند پر پہنچا اور پکارنے لگا،’’ دانی ایل ! کیا تیرے خُدانے تجھے شیروں کےمنہ سے بچا لیا‘‘؟ دانی ایل نےجواب دیا،’’ میرے خُدا نے اپنےفرشتے کو بھیجا اور اُس نے شیروں کے منہ بند کر دیئے‘‘۔بادشاہ نہایت خوش ہوا۔دانی ایل کو شیروں کی ماند سے نکال لیا۔بادشاہ کے حکم پر دانی ایل کے دشمنوں کو شیروں کے آگے ڈال دیا گیا اور شیروں نے اِنہیں اُسی وقت ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔
بھائیو اور بہنو ! اگر ہمارا ایمان دانی ایل اور اِس کے دوستوں کے زندہ خُدا پر ہے تو پھر ہمیں اِس بات سے نہیں ڈرنا چاہیے کہ لوگ ہمارے ساتھ کیا کریں گے۔اگر لوگ ہمیں جان سے مار بھی دیں پھر بھی ہماری ایک اُمید قائم ہے۔کیونکہ یسُوع خُدا کے پاس سے آیا تاکہ ہمیں موت کے بعد زندگی بخشے۔
۱۹۔ خُدا کا گ
نحمیاہ ۱: ۱۔۲: ۷
نحمیاہ ایک یہودی تھا۔جو خُدا پر ایمان رکھتاتھا۔دانی ایل کے زمانے کے بعد وہ بابل میں رہتا تھا۔اِس کے باپ داوا کا شہر یروشیلم بالکل کھنڈر بن چکا تھا۔نحمیاہ ایک بڑے بادشاہ کا خادم تھا۔ایک دن جب وہ بادشاہ کو مے پلا رہا تھا۔تو بادشاہ نے پوچھا،’’تیرا چہرہ کیوں اُداس ہے‘‘؟ نحمیاہ نے یروشلیم اور بنی اسرائیل کے بارے میں بتایا۔بادشاہ نے پوچھا،’’تو مجھ سے کیا چاہتا ہے‘‘؟نحمیاہ نےبڑی خاموشی سے خُدا سے دُعا کی اور پھر بادشاہ سے درخواست کی،’’ تُو مجھے میرے باپ دادا کےشہر کو بھیج دےتاکہ مَیں اُسے پھر سے بناؤں‘‘۔خُدا نے نحمیاہ کی دُعا کا جواب دیا کیونکہ بادشاہ نے نحمیاہ کی درخواست منظور کر لی۔
۲۰۔ اجڑا شہر یروشلیم
نحمیاہ ۲: ۷۔۲۰
بادشاہ نے نحمیاہ کو عمارتی سامان اور مدد کے لئے کچھ آدمیوں کے ساتھ روانہ کیا۔وہ سفر کرتے ہوئے یروشلیم جا پہنچے۔بنی اسرائیل کے دشمنوں نے نحمیاہ ے بارے میں سُنا تو وہ غصّہ میں آ گئے۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی یہودیوں کی مدد کرے۔نحمیاہ اِن سے خوف زدہ نہیں تھا۔نحمیاہ یروشلیم کا جائزہ لینا چاہتا تھا۔وہ سوار ہوکرشہر کی ٹوٹی دیوار کے گرد چکر کاٹتا رہا۔یہ کام اِس نے رات کے وقت کیا تاکہ کہ کسی کو علم نہ ہو کہ وہ کیا کر رہا ہے۔اگلی صبح نحمیاہ نے سب یہودیوں کو اکٹھا کیا اور کہا،’’ آؤ ہم یروشلیم کی دیواریں دوبارہ تعمیر کریں اور یوں ہم آئندہ نسلوں سے شرمسار نہ ہوں گے‘‘۔اِس نے اِنہیں بتایا کہ خُدا اِن کے ساتھ ہے ہمیں اپنے دشمنوں سے نہیں ڈرنا چاہیے۔یہودی نحمیاہ کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہوگے۔
۲۱۔ دیوار کی ت
نحمیاہ ۳: ۱۔۶: ۱۹
یہودیوں نے دیوار بنانے کا کام شروع کر دیا۔کچھ یہودیوں نے ملبہ ہٹایا جبکہ دوسروں نے دیواریں اور پھاٹک بنائے یہ دیکھ کر یہودیوں کے دشمن سخت غصّے میں آ گئے۔اُنہوں نے یہودیوں کو کام کرتے وقت جان سے مار دینے کی دھمکی دی پس نحمیاہ نے پھر سے خُدا سے دُعا کی کہ آئندہ اِن کو کیا کرنا ہوگا۔اسے خُدا کی راہنمائی کی ضرورت تھی۔اِس نے معماروں کی حفاظت کے لئے مسلح آدمیوں کو دیواروں پر کھڑا کر دیا۔سب نے ہتھیار سنبھال لئے اور جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔دشمن نحمیاہ اور یہودیوں کو مارنے میں نا کام رہے۔کام جاری رہا اور صرف باون دنوں میں دیوار نئے سرے سے مکمل ہو گئی۔
۲۲۔ عزرا اور توریت کی تلاوت
نحمیاہ ۸: ۱۔۱۳: ۳۱
جب یروشلیم کی دیوار مکمل ہوگئی تو یہودی یروشلیم میں آپس میں اکٹھے ہوئے۔خُدا کے کاہن عزرا نے کتابِ مُقدس میں سے تلاوت کی۔کچھ لوگ رونےلگے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اُنہوں نے خُدا کی نافرمانی کی ہے۔اِس لئے خُدا نے اُن کے دشمنوں کو موقعہ دیا کہ وہ اِس شہر کو تباہ کردیں۔یہودی اپنی بد چلنی کو ختم کر دینا چاہتے تھے اور پھر سے خُدا کی پیروی کرنا چاہتے تھے۔نحمیاہ نے لوگوں سے کہا، ’’اُداس مت ہو خُداوند کی شادمانی تمہاری طاقت ہے‘‘۔
بھائیو اور بہنو ! کیا آپ خوش ہیں؟ جب ہم خُدا کو جان لیتے اور اُس کے پاک کلام کو مانتے ہیں تو خُدا ہمیں خوشی اور روحانی قوت بخشتا ہے۔
۲۳۔ یسُوع صلیب پ
یوحنا ۱۹: ۱۷۔۳۰؛ رومیوں ۵: ۸
خُدا کو جاننے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ہمیں وہ راستہ دکھانے کے لیےخُدا نے اپنے بیٹے یسوع کو بھیجا۔کئی سال پہلے یسوع اِس دنیا میں رہتا تھا۔یسوع نے لوگوں کی مدد کے لئے بہت اچھے کام کئے۔یسوع نے ہمیں خُدا کو خوش کرنے کا طریقہ بتایا۔لیکن ہم اُس کی راہوں پر نہیں چلے۔ہم سب نے خُدا کے خلاف گناہ کیا ہے۔گناہ کی سزا ہمیشہ روحانی موت ہے۔خُدا نے الیشع اور دانی ایل اور کئی دوسرے لوگوں کو موت سے بچایا۔خُدا نے یسوع کو موت سے نہیں بچایا۔خُدا نے بدکار آدمیوں کو موقعہ دیا کہ وہ یسوع کو ماریں۔اُنہوں نے یسوع کو لکڑی کی صلیب پر ٹھونک دیا۔یسوع ہماری خطاؤں کی سزا اپنے اوپر لے لینا چاہتا تھا۔وہ ہم سے پیار کرتا ہے۔خُدا ہمارے گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور ہم خُدا کے پاس آسکتے ہیں۔یسوع ہماری روحوں کو زندگی بخشتا ہے۔ہم خُدا کو جان سکتے ہیں،اِس کو پیار کر سکتے ہیں اور اِس کی خدمت کر سکتے ہیں۔
۲۴۔ یسُوع مسیح اور ہمیشہ کی زندگی کا راس
متی ۷: ۱۳؛ یوحنا ۱۴: ۶
بھائیو اور بہنو ! زندگی ایک ایسی لمبی اور چوڑی سڑک پر چلنے کی طرح ہے جو موت کی طرف لے جاتی ہے۔سب نے خُدا کو ناراض کیا۔ہم سب شیطان کے راستے پر چل رہے ہیں۔یہ راستہ موت کے بعد ہمیشہ کی سزا کا راستہ ہے۔یسوع نے دکھ اٹھایا اور جان دے دی۔تاکہ ہمیں اِس سزا سے بچا سکے۔پھر وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ۔یسوع ہمیں خُدا تک پہنچنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ہمیں یسوع کے راستے کی پیروی کرنی چاہیے۔یہ ایک مشکل اور تنگ راستہ ہے۔بعض اوقات ہمیں دانی ایل اور اِس کے دوستوں کی طرح اس زندگی میں دکھ اُٹھانے پڑتے ہیں لیکن یسوع کا راستہ ہمیں آسمان کی طرف لے جاتا ہے۔وہاں پر کوئی دکھ تکلیف نہ ہوگی۔وہ ایک ابدی خوشی اور سلامتی کی جگہ ہے۔خُداوند خُدا وہاں موجود ہے۔یسوع نے کہا،’’ راہ مَیں ہوں۔۔۔کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ یعنی خُدا کے پاس نہیں جا سکتا‘‘۔آپ بھی یسوع سے دعا کیجئے اِس التجا کیجئے کہ وہ آپ کو خُدا تک پہنچنے کا راستہ دکھائے ۔آمین
آیئے اپنا امتحان لیں۔
آیئے اپنا امتحان لیں۔
1. نعمان نے کوڑھ کی بیماری سے کیسے شفا پائی؟
2. خُدا نے بنی اسرائیل کو بچانے کے لئے چار کوڑھیوں سے کیا کام لیا؟
3. یوناہ کو خُدا نے مچھلی کے پیٹ میں کیوں ڈالا؟
4. آستر نے اپنی قوم کو کیسے بچایا؟
5. دانی ایل کو آگ کی بھٹی میں کیوں پھینک دیا گیا؟
6. زندگی کے دو راستے کون سے ہیں؟ہمیں کس راستے پر چلنا چاہیے؟